دماغ کو بوڑھا کرنے والی عام عادات

دماغ

دماغ کو بوڑھا کرنے والی عام عادات کسی بھی عادت اختیار کرنے میں تو وقت نہیں لگتا لیکن اسے چھوڑنے میں مہینے بلکہ سالوں بھی لگ سکتے ہیں جوکہ انسانی صحت پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔ آج ہم آپ کو وہ عام عادات بتارہے ہیں جن سے چھٹکارا پاکر ہم اپنے دماغ کو جلد بوڑھا ہونے سے بکے

امراض اور بلند فشارِ خون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تمام علامات الزائمر کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں چاسکتے ہیں، چند عادات درج ذیل ہیں۔ اس کے علاوہ مستقل بیٹھے رہنے والے افراد کو ذیابیطس، دل 32 ہے، یاد رکھیں ہر رات مناسب نیند لینا آپ کی صحت کے لیے بہت اہم ہے، نیند میں کمی سے دماغ پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے، جس کے باعث نسیان اور الزائمر جیسے خطرناک امراض لاحق ہوسکتے ہیں۔ اگر آپ کو رات کے اوقات میں سونے میں مشکل ہوتی ہے تو آپ کو شام کے بعد کیفین رکھنے والے مشروبات اور الیکٹرانک ڈیوائسز سے پرہیز کرنا چاہیے، سونے کی باقاعدہ تیاری کریں، ماحول کو پرسکون بنائیں،

آپ کو زندگی میں نئی تبدیلی محسوس ہوگی۔ ناقص خوراک اُن لوگوں کے سیکھنے اور یاد رکھنے والا دماغ کا حصہ چھوٹا ہوتا ہے جو بہت زیادہ برگر، فرائیز، آلو کے چپس کھاتے اور بوتلیں پیتے ہیں، ایک صحت بخش غذا کا مطلب ہے پھل، خشک میووں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال ، جو دماغ کو محفوظ کرتی ہیں اور اس کے زوال کی رفتار بھی آہستہ کرتی ہیں۔ تمباکو نوشی کی عادت تمباکو نوشی کے خطرات سے کون واقف نہیں؟ پھر بھی ایسے لوگوں کی تعداد کروڑوں میں ہے جو تمباکو نوشی کرتے ہیں، اس کے مضر اثرات کی طویل فہرست میں سے ایک ہے دماغ کا سکڑ جانا۔ تمباکو نوشی یادداشت پر اثر

مرتب کرتی ہے، نسیان اور الزائمر جیسی بیماریوں کے خطرے کو دو گنا کر دیتی ہے اور ساتھ ہی دل کے امراض، ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر یعنی بلند فشارِ خون کا سبب بھی بنتی ہے۔ زیادہ کھانا آج کل کھانا گویا طرزِ زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ مل بیٹھنے کے لیے بھی کھانا اور باہر جانے کے لیے بھی کسی کھانے پینے کی جگہ ہی کی تلاش کرنا گویا معمول ہے، یہی وجہ ہے کہ چٹوروں کی ایسی نسل تیار ہو چکی ہے کہ جن کی گفتگو کا محور محض کھانا ہوتا

ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ کھانے سے دماغ کی سوچنے اور یاد رکھنے کے رابطے بنانے کی صلاحیت کمزور ہوتی ہے، پھر زیادہ کھانے کے دوسرے بُرے اثرات بھی ہیں جیساکہ موٹاپا، جو آجکل “اُم الامراض” بنا ہوا ہے جیسا کہ دل کی بیماریاں، ذیابیطس اور بلند فشارِ خون جیسے خطرناک مرض۔ یہ سارے امراض دماغ کو بھی بُری طرح متاثر کرتے ہیں۔ اونچی آواز میں میوزک سننا میوزک سننے کے لیے ہیڈ فونز اور ایئر فونز کا استعمال عام ہے اور کچھ لوگ تو انہیں کانوں سے نکالنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اونچی آواز میں میوزک سننے سے تو کانوں کو نقصان پہنچتا ہی ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس سے الزائمر

جیسے دماغی مسائل بھی جنم لے سکتے ہیں اور دماغ کے ٹشوز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 30 منٹ تک زیادہ آواز میں میوزک سننا ہی دماغی نقصان کے لیے کافی ہے۔ تنہائی میں رہنا تحقیق بتاتی ہے کہ زیادہ دوست رکھنے والے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں اور ان کام کرنے کی صلاحیت بھی زیادہ ہوتی ہے، ان میں دماغی امراض اور الزائمر کے خطرات بھی کم ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ گھر میں زیادہ رہنا بھی دماغ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے،

بالخصوص سرد علاقوں میں جسم کو دھوپ نہ ملنے سے بھی دماغ کی نمو سست پڑ جاتی ہے۔ تحقیق بتاتی ہے کہ دھوپ دماغ کو اچھی طرح کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔ اگر آپ کو پریشانی ہے کہ آپ زیادہ وقت تنہا گزارتے ہیں تو کوئی مقامی کلب جوائن کر لیں یا کسی ایسی سرگرمی کا حصہ بنیں کہ جس سے آپ کے نئے رابطے بنیں۔ ذہنی دباؤ وقتاً فوقتاً دباؤ کا شکار ہونا زندگی کا حصہ ہے، چاہے آپ کسی بھی شعبے میں ہوں، کہیں بھی رہتے ہوں، زندگی کے معمولات

ہمیں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار بناتے رہتے ہیں۔ دباؤ کو سہنے کا حوصلہ بھی مختلف لوگوں میں مختلف ہوتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ جو بات کسی ایک شخص کے لیے زیادہ پریشان کُن نہ ہو جتنی دوسرے کے لیے ہو۔ ذہنی دباؤ ہمارے لیے اچھا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ درمیانے درجے کا ہو، اس سے ہم ہوشیار اور چوکس رہتے ہیں، لیکن مسلسل دباؤ دماغ کے لیے بہت بُرا ہے، یہ دماغ کو ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے، اس سے دماغ مستقل بنیادوں پر

تبدیلی کا شکار ہو سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقل دباؤ کے شکار افراد میں مزاج میں تبدیلی اور ذہنی اضطراب زیادہ ہوتا ہے۔ حسد، کینہ، بغض و عداوت حسد، کینہ، بغض اور عداوت یہ بہت بُری عادتیں ہیں، اس کے ذہن پر بہت منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں، معاف کرنا اور بھول جانا سیکھیں، یہ آپ کی ذہنی صحت کے لیے بھی اچھا ہے۔ تحقیق سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاف کردینے سے جسمانی، نفسیاتی بلکہ روحانی طور پر بھی مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں، یوں فشارِ خون کا معمول پر آ جاتا ہے، ذہنی تناؤ اور دباؤ میں کمی آتی اور ذہنی اضطراب کم ہوجاتا ہے۔

اپنی رائے کا اظہار کریں