حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا: کہ ایک شخص کا انتقال ہوا قبر میں اس سے سوال ہوا، تمہارے پاس کوئی نیکی ہے؟اس نے کہا: کہ میں لوگوں سے خرید و فروخت کر تا تھا، اور جب کسی پر میرا قرض ہو تا، تو میں مالداروں کو مہلت دیا کر تا تھا،اور تنگ دستوں کے قرض کو معاف کر دیا کر تا تھا، اس پر اس کی
بخشش ہو گئی۔ حضرت محمد ﷺ نے فر ما یا: چار چیزیں آپ کو ختم کر دیتی ہیں؟ پر یشانی، غم، بھوک اور دیر سے سونا۔ حضرت حسن بصری ؒ نے بلند آواز میں فر ما یا: لوگو اللہ تعالیٰ کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہو، دروازہ ضرور کھلتا ہے، ایک بڑھیا نے سنا تو بو لی: اے حسن، کیا اللہ تعالیٰ کا دروازہ بند بھی ہو تا ہے؟ حسن بصری ؒ یہ بات سن کر غش کھا کر گر پڑےاور فر ما یا: اے اللہ پاک: یہ بڑھیا تجھے مجھ سے زیادہ جانتی ہے۔ سب سے برا کھیل وہ ہے جو کسی
کے خلوص سے کھیلا جا ئے۔ اللہ جب بہترین سے نوازتا ہے تو پہلے بد ترین سے گزارتا ہے۔ اگر آدمی کی نیت درست ہو اور وہ کوشش شروع کر دے تو اللہ تعالیٰ کی مدد آ جا یا کر تی ہے میں نے بندگی کا طریقہ پر ندوں سے سیکھا! جن کے گھونسلے طوفانی راتوں میں تباہ ہو جا تے ہیں، مگر صبح ہو تے ہی وہ شکا یتوں کے بجائے اللہ سبحان و تعالیٰ کی حمد و ثناء میں مصروف ہو جا تے ہیں۔ اناؤن ، نفرتوں،خود غرضیوں کے ٹھہرے پانی میں محبت گھو لنے والے
بڑے درویش ہو تے ہیں۔ ہر آدمی اپنا درخت الگ الگ اگا نا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ انسا نیت کا باغ تیار نہیں ہو تا۔ ہر میاں بیوی پر ایک وقت ایسا بھی آ تا ہے کہ جب کچھ لوگ ان کے رشتے کو کمزور کر نے کی کوشش کر تے ہیں جو اس مشکل وقت میں نکل گیا۔ وہ سکھی اور جو لوگوں کی باتوں میں آ گیا اس کا مقدر نہ ختم ہونے والا دکھ ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فر ما یا: چار چیزیں بد نصیبی کی پہچان ہیں۔ پہلا: آنکھوں کا خشک ہو نا:اللہ کے خوف سے کسی وقت بھی آپ
کے آنسو نہ ٹپکے ہوں۔ دوسرا: دل کا سخت ہو جا نا: آخرت کے لیے یا کسی دوسرے کے لیے کسی وقت بھی کبھی نرم نہ پڑے۔ یعنی کسی غریب، یتیم، مسکین کو دیکھ یا کسی بھی معاملے پر جہاں پر رحم دلی کا مظاہرہ کر نا ہو۔ وہاں پر آپ کا دل نرم نہیں ہو تا تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ آپ کا دل سخت ہو چکا ہے۔ تیسرا: امیدوں کا لمبا ہو نا: لمبی لمبی امیدیں رکھنا کہ میں ابھی یہ کروں گا۔ دس سال بعد یہ کروں گا۔ بیس سال بعد یہ کروں گا۔ اور پل بھر کی خبر نہیںکہ م
و ت کب آ جا ئے اور امید یں آپ کی دس پندرہ سال ہوں۔ تو یہ بھی بد نصیبی کی علامت ہے۔ چوتھا: دنیا کی لالچ: آج کے دور میں ہم یہی تو کر رہے ہیں۔ کہ دنیا کی بھاگ دوڑ میں لگے ہو ئے ہیں۔ آخرت کو بالکل بھول چکے ہیں۔ دنیا کی بھاگ دوڑ میں لگ کر چاہے وہ حلال طریقے سے آ رہا ہو۔ یا حرام طریقے سے آرہا ہو۔ بس پیسہ کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اپنا دین، اپنا قبلہ سب ہم نے پیسے اور دولت کو بنا کر رکھا ہوا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ سے دعا ہے یہ جو ہم نے بد
نصیبی کی علا مات ہیں۔ہمیں اللہ تعالیٰ ان سے محفوظ فر ما ئے ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے فر ما یا: کسی کو دکھ دینے والا کبھی خوش نہیں رہ سکتا۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فر ما یا: کسی کی بے بسی پر مت ہنسو، کل یہ وقت تم پر بھی آ سکتا ہے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فر ما یا: کسی کی آنکھ تمہاری وجہ سے غم نہ ہو کیونکہ تمہیں اس کے ہرآ نسو کا قرض چکا نا ہو گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ شیرِ خدا نے فر ما یا: مظلوم اور
نمازی کی آہ سے ڈرو،کیونکہ آہ کسی کی بھی ہو عرش کو چیر کر اللہ کے پاس جاتی ہے۔ ہوائیں موسموں کا رخ بدل سکتی ہیں اور دعائیں مصیبتوں کا ۔ کچھ باتوں کا جواب صرف خاموشی ہو تی ہے اور خاموشی بہت خوبصورت جواب ہے۔ تمام اشاعت کے جملہ حقوق بحق ادارہ محفوظ ہیں۔بغیر اجازت کسی قسم کی اشاعت ممنوع ہے
اپنی رائے کا اظہار کریں